غریبوں کے اچھے دن کب آئیں گے؟

یار محمد تانترے   منڈی پونچھ

غریبوں کے اچھے دن کب آئیں گے

یار محمد تانترے 

 منڈی پونچھ

 جموں وکشمیر 

 وزیر اعظم ہند نے ملک بھر میں سینکڑوں مختلف ترقیاتی اسکیموں کا بڑے زور و شور سے آغاز کیا ہے۔تاکہ غریب عوام کو براے راست فائیدہ پہونچ سکے۔ اور غریب بھی ان اسکیموں سے فیض یاب ہوسکے۔ دیگر محکمہ جات تو ابھی زمینی سطح پر اپنا چہرہ دیکھانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ایک محکمہ دیہی ترقی ہے۔ جس میں کئی اونچ نیچ کے ساتھ پھر بھی غریب عوام کچھ حد تک مستفید ہورہی ہے۔ کچھ لے دے کر ہی سہی عوام کو اسی محکمہ سے فائیدہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس محکمہ کے متعلق کچھ نہ کچھ جانکاری بھی رکھتے ہیں۔

محکمہ دیہی ترقی کی متعدد اسکیمیں عوام کو متعارف تو کرائی جاتی ہیں لیکن ان کا اس قدر عوام کوفائیدہ نہیں پہونچ پاتا جس قدر ہونا چاہئے تھا۔ جن اسکیموں میں مرکزی معاونت والی ایم جی نریگا، سوچھ بھارت ابھیان، پردھان منتری آواس یوجنا، ایس، ڈی، آر، ایف، 14/15FC وغیرہ شامل ہیں۔پردھان منتری آواس یوجناسکیم غریب عوام کو آشیانہ بنانے کے لیے رقومات فراہم کرنے کی غرض سے بنائی گئی ہے۔تاکہ جن لوگوں کے پاس رہنے کو گھر نہیں وہ بھی آپناآشیانا بناسکیں۔ اس سکیم کو زمینی سطح پر کارگر ثابت کرنے میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی ضرور رہ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے تا حال غریب عوام اس سکیم سے مستفید نہ ہو سکے ہیں۔ اس کا اندازہ مختلف پنچائتوں کے لوگوں سے بات کرنے اور ان کے درد بھری داستاں سننے سے لگایاجاسکتاہے۔ 

 

تحصیل منڈی کی پنچائیت بیدار وچند دیگر پنچائیتوں کی عوام کا کہنا ہے کہ پنچایت نمائندگان تمام تر سرکاری اسکیموں کا عوام کے لئے کم اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔جس کی وجہ سے کچھ ماہ سے پنچائیت نمائیندگان کے خلاف افواہیں گردش کررہی ہیں۔جس کی مثال سوشل میڈیا پر ایک آڈیو گردش کر رہی ہے۔ جس میں حلقہ پہنچائت بیدار کے نائب سرپنچ فون کال کے ذریعے گاؤں کے ہی 55 سالہ عبدالرشید گنگیال نامی ایک شخص سے کمیشن کے نام پر رقم طلب کرنے کی تفصیلی بات کر رہا ہے۔جس میں اس کے بھائی کا پی ایم اے وائی کی فائیل منظور ہوئی تھی۔اور ایک قِست پچاس ہزار کی اس کے کھاتے میں پڑ بھی چکی ہے۔اس کی آڈیو وائرل ہونے کے چند دن بعد بلاک ڈولپمنٹ آفیسر منڈی و بی ڈی سی چئرمین بلاک منڈی نے مشترکہ طور پر حرکت میں آ کر دونوں مذکورہ فون کالرکو اپنے دفتر میں طلب کیا۔

 

گاؤں کے چند معزز اشخاص کے علاوہ بیدار پنچایت میں تعینات محکمہ ملازموں کو بھی کوبھی طلب کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران یہ ثابت ہوگیا کے نائب سرپنچ کے ساتھ ساتھ سرپنچ پنچایت بھی کمیشن کے نام پر پیسے لینے میں ملوث ہے۔جبکہ محکمہ کے ملازمین کا اس سے کوئی بھی تعلق نہ ہے۔ بلکہ یہ پنچایت نمائندگان ہی پنچایت ملازمین کے نام پر اپنی جیب گرم رہے ہیں۔ تحقیقات تو ہوئی لیکن بلاگ ڈولپمنٹ آفیسر کی جانب سے کوئی قانونی کاروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ جس کی وجہ سے عوام کو بھی شک ہورہاہے کہ کہیں محکمہ بھی تو درپردہ ملوث ہوسکتا ہے! اس کو لیکر حلقہ پنچایت بیدار سے تعلق رکھنے والے60 سالہ غلام احمد شیخ نامی شخص نے بتایا کہ پردھان منتری آواس یوجنا کے اس ترقیاتی دور میں 10/12 فٹ کے ایک کمرے میں اپنی بیوی اور تین بیٹیوں کے ساتھ زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہوں۔ کوئی بیٹا نہ ہے جس کی وجہ سے اس عمر میں بھی محنت مشقت کر کے اپنے عیال کی روزی روٹی کا بڑی مشکل سے بندوبست کرتا ہوں۔کوئی بھی ذریعہ معاش نہ ہے۔ اس دور میں ایک کمرے میں گزارہ مشکل ہے۔اب میرے پاس اتنا مایابھی نہیں کے مکان تعمیر کرسکوں۔ یہ کمرہ بھی اب بوسیدہ ہو چکا ہے۔ اکثر بارش میں چھت ٹپکتی رہتی ہے۔اب سردی کا موسم بھی قریب آرہا ہے۔ بہت فکر مند ہوں۔مذکورہ شخص کا مزید کہنا ہے کہ پردھان منتری آواس یوجنا میں میرا نام شامل نہ کیا کیوں کہ پنچایت نمائندگان نے نام درج کرانے کے لیے پہلے ہی کمیشن طلب کی تھی۔ وہ میرے پاس تھی ہی نہیں۔ میں کمیشن کے نام پر کوئی رقم ادا نہ کر سکا۔جس کی وجہ سے پی ایم ائے وائی اسکیم سے محروم رہنا پڑا ہے۔ 

حلقہ پنچایت بیدار سے ہی تعلق رکھنیوالے نذیر احمد کا کہنا ہے کہ ہماری پنچایت میں پنچایت نمائندگان صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ نذیر احمد کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ میں سرپنچ کا بھائی ہوں مگر جہاں حق اور حقوق کی بات ہو وہاں میں نے سب کچھ بھلا کر ہمیشہ غریب کا ساتھ دیا ہے۔ نذیر احمد نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کے سرپنچ پرد ھان منتری آواس یوجنا لسٹ میں اپنے گھر کے چار 4 نام درج کر رکھے ہیں۔ اور اپنی عالیشان عمارت تیار کروا رہا ہے۔ اور غریب عوام در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔

مذکورہ پنچایت کے وارڈ نمبر 2 سے تعلق رکھنے والے جہانگیر احمد نے بتایا کہ ہمارے محلے میں جتنے بھی کچے مکان والے ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی نام پی ایم ائے وائی لسٹ میں شامل نہ ہے۔جہانگیر احمد نے افسوس سے بات کرتے ہوے کہا کہ جب ہم نے سرپنچ سے بات کی کہ پی ایم اے وائی میں ہمارانام بھی ہے یانہیں، تو اس نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں ان لوگوں کا کام کرتا ہوں جنہوں نے مجھے ووٹ دیا ہے۔اور یہ بھی کہا آپ نے جو کاروائی کرنی ہے میرے خلاف کر لو مجھے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ پنچایت بیدار کے وارڈ نمبر 2 کی 55سآ لہ پوشمال بیگم نے بتایاکہ میرے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں کوئی بھائی بھی نہیں ہے۔اکیلی رہتی ہوں۔ مکان گرنے والا ہے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا اس لیے بہن کے گھر جا کر رہنے لگی ہوں۔ عرصہ دو سال سے پہنچائیت دفتر کے علاوہ سرپنچ صاحب کے گھر کے چکر کاٹ رہی ہوں۔سر پنچ صاحب ٹال مٹول کر رہے ہیں۔ اور ہمیشہ تسلیاں ہی دے رہے ہیں۔عرصہ دو سال سے پی ایم ائے وائی کی خاطر ہر ممکن کوشش کی۔تمام پنچایت نمائندگان کی منت سماجت کی،لیکن میں اب بھی اپنے حق سے محروم ہوں۔

بیدار پنچایت وارڈ نمبر 6 کے 65 سالہ سلطان محمد تنترے نے بتایا میرا نام 2011 کی لسٹ میں موجود ہے۔ اور 2018 میں مکان کا جیوٹیک بھی محکمہ ملازمین کر چکے ہیں۔ 2018 سے آج تک مجھ سے تین بار طلب کی گئی جو میں جمع کروا چکا ہوں۔ابھی تک کوئی بھی نتیجہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی مجھے پی ایم ائے وائی کے زمرے میں شامل کیا گیا۔مذکورہ پنچایت کے وارڈ نمبر 9 سے تعلق رکھنے والے غلام قادر شیخ نے کہا کہ میرا نام بھی اس لسٹ میں شامل ہے مکان کا کام بھی شروع کر چکا ہوں۔پنچایت نمائندگان نے فائل طلب کی لیکن فائل یہ کہہ کر واپس دے دی کہ تمہارے باپ کی جگہ دادا کا نام درج ہے۔بعد میں پتہ چلا کہ یہ پی ایم ائے وائی کی رقم میرے ایک ہمنام غلام قادر کے نام پر اکاؤنٹ میں ڈالی جا چکی ہے۔جس کا مکان بیدار پنچایت میں موجود نہں ہے۔بلکہ وہ کسی دوسری پنچایت میں رہتا ہے۔ اور وہاں مقیم ہوتے ہوئے بھی بیدار پنچایت میں سکونت لکھواتا ہے۔جس کی وجہ سے میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ مجھے ترقیاتی اسکیم سے محروم رکھاگیاہے۔

وارڈ نمبر چھ کے رہنے والے شاہ محمد نے بتایا کہ میرا پی ایم ائے وائی لسٹ میں نام موجود ہے۔ اور مجھے عرصہ ایک سال سے کہا جا رہا ہے کہ تمہارا اکاؤنٹ نمبر غلط ہے۔میں نے پنچایت نمائندگان سے اکاؤنٹ درست کروانے کی بات کی لیکن کسی نے میری بات پر توجہ نہیں دی۔ مذکورہ شخص نے یہ بھی بتایا کہ پچھلے ہفتے میں بلاک ڈولپمنٹ آفیسر سے ملا۔ انہوں نے جب کاغذات منگائے تو میری فائل میں میرا اکاؤنٹ نمبر بالکل درست تھا لہذا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ پنچایت نمائندگان ہی ہم جیسے غریب عوام کو گمراہ کر کے اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں ہیں۔ ایسے اور بھی بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے چنے ہوے نمائیندگان کے ہاتھوں ستاے گئے ہیں۔اور یہ کہہ کر لوگوں کو چپ کروادیاجاتاہے کہ اگر تم کہیں بولے تو آپ کا کوئی کام نہیں ہوگا۔ جب ایک پنچائیت کی یہ حالت ہے تو دیگر پنچائیتوں میں بھی تو دودھ سے دھلے نہیں ہونگے!

ان مسائل کے بارے میں جب بلاک ڈولپمنٹ آفیسر منڈی مظہر علی جعفری سے بات کی تو انہوں نے بڑے ہی مدبرانہ انداز میں اطمینان بخش جواب دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کو مشکلات درپیش ہیں۔ وہ ہمارے دفتر میں آ کر براہ راست رابطہ کریں تاکہ ہم مستحق افراد کی ہر ممکن مدد کر سکیں۔ ہاں اگر ہمارا کوئی ملازم رشوت وغیرہ میں ملوث ہوگا اس کا نوٹس لیاجاے گا۔

ان حالات اور واقعات کو کوئی ایک ملازم آفیسر یا شخص ٹھیک نہیں کرسکتاہے۔کیوں کہ جس قدر رشوت اور غریبوں کے لئے اچھے دنوں کا وعدہ کیا گیاتھا۔ فلحال ابھی اچھے دن تو نہیں آئے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ مشکلات والام بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ ہاں رشوت خوری کا نام بدل کر کمیشن ضرور ہو گیا ہے۔ پہلے چھپ کر لی اور دی جاتی تھی،اب سامنے سامنے اس طرح وصول کی جارہی ہے۔جس طرح کسی قرض دار سے قرضہ وصول کیا جارہاہو! 

 

یہ تو ایک پنچائیت کا حال وہ بھی کچھ ہی لوگوں کی زبانی بیان ہواہے۔ دیگر پنچایتوں کا حال بھی نرالا ہے۔ کچھ روز پہلے پنچائیت مہارکوٹ کا واویلا چلا،توانتظامیہ نے ٹیم تشکیل دی۔جو زمینی حقائق کی نشاندہی کے لئے موقع پر گئے۔دیکھا سنا اور ریپورٹ اعلی آفیسران کو ارسال کردی،اور معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔بیدار رشوت ستانی کا معاملہ چلا بلاک ڈولپمنٹ چیرمین نے انکوائری کی، لیکن معاملہ دبادیاگیا۔ایسے ہی سنکڑوں معاملات کو انتظامیہ نے ملی بھگت کرکے ٹھنڈے بستے میں اور پھر ردی کی ٹوکری میں اور پھر سردیوں کی آمد پر انگیٹھیوں میں ان عرضیوں، شکائیتوں اور ریپورٹوں کو نظر آتش کردیاہے۔ اور عوام کو یہ کہاجاتارہتاہے کہ آپ کی شکایات اعلی آفیسران کو سونپ دی گئی ہیں۔جب جانکاری انکوائری اور معاملات کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے تو یہاں کی عوام کے اچھے دن کیسے آئیں گے؟(چرخہ فیچرس